تاریخ

وہاڑی کا لفظ ویہا سے نکلا جس کے لفظی معنی رواں پانی کے ہیں۔ قرینہ قیاس یہ ہے کہ سوکھے ہوئے دریائے بیاس کو پنجاب کے لوگوں نے ویہاس کہا اور کثرت استعمال کی وجہ سے ویہا سے وہاڑی ہو گیا۔ضلع وہاڑی دو دریاؤں دریائے بیاس اور ستلج کے درمیان واقع ہے۔ اس خطے کو دریائے ستلج کے نیلے پانی کی وجہ سے نیلی بار بھی کہا جاتا ہے اب نہ وہ پانی رہے اور نہ ہی پانیوں کا نیلا رنگ رہا۔جب کبھی سیلاب آ جائے تو دریا میں پانی آتا ہے اس کے علاوہ دریا سوکھے رہتے ہیں۔وہاڑی کو یکم اپریل 1976ء میں ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا گیا۔ ضلع میں تین تحصیلں جن میں بورے والا، میلسی اور وہاڑی موجود ہے۔

حدود اربعہ:

وہاڑی پاکستان کے تاریخی شہر ملتان سے تقریباً ایک سو اور لاہور سے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے اس کا کل رقبہ چار ہزار تین سو 65 سکوائر کلومیٹر ہے۔بیسویں صدی کے شروع میں انگریزوں نے جن علاقوں کو آباد کیا تھا ان میں عارف والہ، بورے والہ اور وہاڑی شامل تھے اس لیے ان شہروں کا نقشہ ملتا جلتا ہے۔

آبادی:

ء کی مردم شماری کے مطابق وہاڑی کی کل آبادی چھ لاکھ 54 ہزار نو سو 55 افراد پر مشتمل تھی۔1998

تعلیم:

وہاڑی میں سرکاری ہائی سکولوں کی تعداد ایک سو 77 ہے ان میں سے سب سے پرانا سکول گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول ہے جو قیام پاکستان سے قبل 1925ء میں بنایا گیا تھا۔ اس وقت سکول میں دو ہزار سے زائد طالب علم زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔

وہاڑی کا ماڈل سکول 1925ء میں قائم ہوا لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کالجز موجود ہیں۔ وہاڑی میں گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول موجود تھا جسے 1968ء میں کالج، 1980ء میں ڈگری کالج اور 1999ء میں پوسٹ گریجویٹ کالج کا درجہ دے دیا گیا۔لڑکیوں کے لیے گورنمنٹ کالج 1974ء میں قائم ہوا جسے سال 1999ء میں پوسٹ گریجویٹ کا درجہ دے دیا گیا۔صحت:وہاڑی میں دو سو بیڈز کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال موجود ہے جو وہاڑی کی آبادی کے لیے ناکافی ہے۔  ڈی ایچ کیو میں چھ سو بیڈز پر مشتمل بلڈنگ کی تعمیر تاحال تاخیر کا شکار ہے

برادریاں:

وہاڑی میں آرائیں، راجپوت، بھٹی، کھچی، گجر، جٹ، شیخ اور رحمانی برادری کے لوگ آباد ہیں۔ریلوے اسٹیشن:وہاڑی ریلوے اسٹیشن قیام پاکستان سے قبل 1923ء میں قائم ہوا۔  قیام پاکستان سے قبل اسٹیشن کا نام گریٹ انڈین پیننسولا ریلوے اسٹیشن تھا

بازار:

وہاڑی کےمشہور بازاروں میں کلب روڈ، ریل بازار اور چوڑی بازار ہیں۔نہریں:وہاڑی کی ایریگیشن کینال پاکپتن جو ہیڈ سلیمانکی سے نکلتی ہے اور پاکپتن، عارف والہ، بورے والہ، میلسی اور وہاڑی کو سیراب کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ لودھراں تک جاتی ہے۔

شخصیات:

ضلع وہاڑی کی معروف سیاسی شخصیات میں میاں ممتاز دولتانہ، سعید خان منیس اور محترمہ تہمینہ دولتانہ شامل ہیں۔میاں ممتاز دولتانہ سابق وزیر اعلیٰ متحدہ مغربی پاکستان، ایم این اے سعید خان منیس سابق سپیکر پنجاب اسمبلی اور ایم این اے محترمہ تہمینہ دولتانہ سابق وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رہ چکے ہیں۔معروف شاعر عباس تابش کا تعلق بھی ضلع وہاڑی سے ہے۔فائر فائٹر خاتون ریسکیو 1122 کی فائر فائٹر خاتون شازیہ پروین جنہیں ایشیاء کی پہلی فائر فائٹر خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے ان کا تعلق بھی وہاڑی سے ہے

تاریخی عمارتیں:

وہاڑی میں سناتن دھرم مندر کی تعمیر قیام پاکستان سے قبل 1940ء میں شروع ہوئی۔ مندر کی بنیاد سیٹھ بھولا ناتھ رام داس اگروال نے رکھی تھی۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کی تحریک نے زور پکڑا تو مندر کی تعمیر رک گئی۔1992ء میں ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو وہاڑی میں بھی مسلمانوں نے احتجاجی جلوس نکالا اور عوام نے مشتعل ہو کر اس مندر پر حملہ کر دیا۔ مندر کی جگہ اب ٹرسٹ پلازہ بنا دیا گیا ہے۔ اب صرف مندر کا ایک مینار باقی ہے

میاں پکھی ریسٹ ہاؤس:

وہاڑی سے بورے والہ روڈ پر 22 کلومیٹر کے فاصلے پر اڈا پکھی موڑ سے ایک سڑک میاں پکھی کی طرف جاتی ہے جہاں بزرگ حضرت میاں پکھی کا مزار واقع ہے۔ جس وجہ سے اس آبادی کو میاں پکھی کہا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تاریخی عمارت کے نشانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں قیام پاکستان سے قبل میاں پکھی ریسٹ ہاؤس کی پرشکوہ عمارت اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کی حامل تھی۔

جامع مسجد باغ والی:

وہاڑی کی تاریخی مسجد جامع مسجد باغ والی ہے جو شہر کے عین وسط میں ریل بازار اور کلب روڈ کے درمیان واقع ہے۔ یہ مسجد 1962ء میں تعمیر کی گئی۔ مسجد سے قبل اس جگہ پر باغ موجود تھا جس وجہ سے مسجد کا نام باغ والی مسجد رکھ دیا گیا

چڑیا گھر:

عید گاہ روڈ پر واقع ایک چڑیا گھر بھی ہے جو پنجاب حکومت نے 1988 میں وائلڈ لائف پارک کو بنایا تھا 16 ایکڑ اراضی پر مشتمل اس وائلڈ لائف پارک میں شیر، ہرن، نیل گائے کے علاوہ کئی قیمتی اور نایاب جانور موجود ہیں یہ پارک جنوبی پنجاب کا بہترین چڑیا گھر کا درجہ رکھتا ہے۔مشہور ساغات:وہاڑی کی مہشور سوغاتوں میں بابا گامے کا فالودہ، ثناءاللہ اور حبیب کے دہی بڑے بہت مشہور ہیں۔