چئیرمین ضلع کونسل : پیر غلام محی الدین چشتی
وائس چئیرمین : رانا شاہد سرور
جمہوری نظام اور بلدیاتی ادارے
کسی بھی مضبوط جمہوری نظام میں بلدیاتی اداروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1959ء میں پہلی بار جنرل ایوب خان کے دور میں بلدیاتی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا گیا۔ جسے بعدازاں 1962 ء کے دستور میں شامل کیا گیا۔ بنیادی جمہوریتوں کے اس نظام پر دس ہزار کی آباد ی پر مشتمل یونین کونسل سب سے نچلے درجے کی مقامی کونسل تھی۔ یونین کونسل کے ارکان میں دس منتخب اور 5 نامزد ہوتے تھے جنہیں بی ڈی ممبر کہا جاتا تھا۔ یونین کونسل کا سربراہ چیئرمین کہلاتا تھا۔ یونین کونسل کے دائرہ کار میں مقامی سطح پر امن و امان کے قیام اور زراعت کی ترقی میں کردار ادا کرنا اور مقامی آبادی کے مختلف مسائل حل کرنا تھا۔ مقامی منصوبوں کیلئے یونین کونسل ٹیکس عائد کرنے کی مجاز تھی۔ صدر پاکستان کے انتخابات کیلئے یہی ارکان ووٹ ڈالتے تھے۔ اسی طرح تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں کام کرتے تھے۔ 1969ء میں ایوب خان کی حکومت کی رخصتی کے ساتھ یہ نظام بھی رخصت ہو گیا۔
دوسری بار لوکل گورنمنٹ سسٹم جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں نافذ کیا جس کے مطابق شہری اور دیہی دو طرح کے ادارے وجود میں آئے۔ شہروں میں ٹائون کمیٹی، مپونسپل کمیٹی، میونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن وجود میں آئیں اور دیہی سطح پر یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے ادارے وجود میں آئے۔ ان اداروں کے ارکان کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا جو کہ اپنے میئر یا چیئرمین کا انتخاب کرتے۔
تیسری بار 2001 ء میں مملکت خداداد کو بلدیاتی نظام پھر ایک فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے نئے انداز میں دیا۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت تین سطح پر مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ضلعی سطح پر ضلع ناظم ضلعی حکومت کا سربراہ بنایا گیا۔ اسی طرح تحصیل ناظم اور یونین کونسل ناظم اپنی اپنی سطح پر سربراہ بنے۔ ڈی سی او کو ضلع ناظم کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ کا سربراہ بنایا گیا جس کے ماتحت مختلف محکموں کے ای ڈی او، ڈی او اور ڈی ڈی اوز وغیرہ تھے۔ اس نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ اس میں ڈسٹرکٹ ’’مجسٹریسی ‘‘سسٹم ختم کر دیا گیا۔
2008ء کے بعد آج تک ملک شراکتی جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے یعنی بلدیاتی انتخابات سے محروم ہے۔ بلاشبہ پرانے بلدیاتی نظام میں خرابیاں موجود تھیں مگر ان خامیوں کو ختم کر کے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد انتہائی ضروری تھا کیونکہ نچلی سطح پر عوام کے لاتعدادمسائل کا حل بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں ہی مضمر ہے۔ عوام کو گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنے کیلئے یہی کارآمد اور آزمودہ نظام ہے۔
جنرل مشرف کے دور حکومت کے بعد آئین میں اٹھارویں ترمیم کی رو سے بلدیاتی اداروں کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار صوبوں کو دے دیا گیا۔ صوبوں کی طرف سے قانون سازی میں کافی تاخیر ہوئی اور صوبوں میں سے سب سے پہلے بلوچستان نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010ء پاس کیا جبکہ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا نے 2013ء میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ پاس کیے۔
لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ کم و بیش لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ء سے ملتے جلتے ہیں کیونکہ ان میں 2001ء کے بلدیاتی نظام کی طرح اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم کا اہتمام موجود ہے۔ تمام صوبوں نے جو قوانین بنائے ہیں ان کے مطابق صوبائی وزیر کی سربراہی میں صوبائی فنانس کمیشن کام کرے گا اور کونسلیں صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کے ذریعے فنانس کا حصہ وصول کرینگی۔ کونسلوں کے پاس کم سے کم ٹیکس عائد کرنے کا اختیار ہو گا۔ پنجاب اور بلوچستان لوکل گورنمنٹ ایکٹس کے مطابق ضلع کونسلیں صوبائی حکومت کی ہدایت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گی جبکہ سندھ اور KPK میں کونسلوں کو زیادہ بااختیار بنانے کی کوششیں نظر آتی رہیں۔
جمہوری حکومتیں اور بلدیاتی انتخابات سے انحراف
ہمارے ہاں رائج جمہوریت پر سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے کا قبضہ رہا ہے۔ یہ نااہل پیسے کے بل بوتے پر اہل لوگوں کو انتخاب میں شکست دیتے ہیں۔ پیسے کے بے دریغ استعمال کے بعد ان لوگوں کی نظر اپنے خرچ کیے ہوئے پیسے پورے کرنے اور اپنی آئندہ نسلوں کیلئے قومی خزانہ لوٹنے پر لگ جاتی ہے۔ اپنے حلقے کے تمام ترقیاتی فنڈزحکومتی خزانے سے جاری ہونے کے بعد متعلقہ ایم این اے اور ایم پی اے کے صوابدیدی فنڈ بن جاتے ہیں اور پھر اگر اس عوامی ترقیاتی بجٹ کا کچھ حصہ خرچ کرنا مقصود ہو تو پھر عوامی مفاد کے بجائے ذاتی اور پارٹی مفاد کو مدنظر رکھ کر خرچ کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ بلدیاتی انتخابات کے حق میں نہیں ہوتے کیونکہ اس صورت میں ترقیاتی بجٹ ایم این اے کے بجائے براہ راست بلدیاتی نمائندوں کو ملتا ہے۔ بلدیاتی نظام میں عوام کا نمائندہ انہی میں سے ہوتا ہے، وہیں رہتا ہے، اسی یونین کونسل، تحصیل یا ضلع میں اس کا دفتر ہوتا ہے، لوگ آسانی سے اپنے نمائندوں سے مل سکتے ہیں اور اپنے مسائل بتاسکتے ہیں۔ اس طرح بڑے بڑے مسائل جنم نہیں لیتے مگر ایک عام آدمی کا ایم این اے یا وزیر کو ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ جب عوام اور نمائندے کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہے تو مسائل جنم لیتے ہیں اور یہ مسائل بالآخر الگ صوبوں کے مطالبے پر منتج ہوتے ہیں اور یہ مطالبہ انتظامی بنیادوں کے بجائے نسلی و لسانی بنیادوں پر ہوتا ہے۔
قائدانقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری (چیئرمین پاکستان عوامی تحریک) پاکستان میں رائج جمہوریت کو جمہوریت نہیں مجبوریت کہتے ہیں کیونکہ اصل جمہوریت تو عوامی شراکتی جمہوریت ہوتی ہے جس میں عوام اپنے نمائندوں کو کنٹرول بھی کر سکتی ہو مگر پاکستان میں رائج مجبوریت میں عوام کے نمائندے منتخب ہونے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں اور پھر دوسرے انتخاب میں جھوٹے وعدوں کے لالی پاپ کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ پورے پانچ سال عوام ٹوٹی گلیوں، ابلتے سیوریج سسٹم کی اصلاح کیلئے نئے انتخابات کا انتظار کرتے ہیں اور دعائیں بھی کرتے ہیں۔ اگر مضبوط بلدیاتی نظام موجود ہو تو پھر ایم این اے اور ایم پی اے ترقیاتی کاموں سے بے نیاز ہو کر قانون سازی پر توجہ دیں گے تو ملکی ترقی کے امکانات روشن ہونگے۔
قابل افسوس امر یہ ہے کہ جمہوریت، جمہوریت کا کھیل کھیلنے والی سیاسی جماعتوں نے آج تک اس ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے حالانکہ یہ جمہوریت کی بنیاد ہیں، جہاں سے جمہوریت پروان چڑھتی ہے اور گراس روٹ لیول سے قیادت تیار ہوتی ہے۔ جو شخص ایک یونین کونسل کا ممبر یا ایک تحصیل و ضلع کا چیئرمین رہا ہو وہی عوام کے مسائل سمجھ سکتا ہے نہ کہ وہ جاگیردار و سرمایہ دار جو غریب عوام کے اصل حالات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ بلدیاتی نظام کا خوف اشرافیہ پر اس قدر حاوی ہے کہ اگر بلدیاتی الیکشن ہوتے ہیں تو سب سے بڑا نقصان مالی اور انتظامی اختیارات سے محرومی کی صورت میں اشرافیہ کے سامنے آتا ہے۔
2008 تا 2013ء پانچ سال پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود جمہوریت کی دعویدار یہ جماعت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہ کروا سکی۔ پیپلز پارٹی کے بعد جب حسب وعدہ و معاہدہ ن لیگ کی باری آئی تو انہوں نے بھی بلدیاتی انتخابات کرانے سے پہلو تہی کی۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی برہمی اور بار بار نوٹس کے باجوود پہلو تہی ہوتی رہی۔ بالآخربلوچستان اور KPK نے یہ میدان مار لیا اور سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کا انعقادکرایا۔ اب حکومت پنجاب پر سپریم کورٹ اور عوام کے دباؤ پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے سواء کوئی چارہ نہیں تو ان نام نہاد جمہوریوں نے بلدیاتی نظام میں تبدیلی کرنا شروع کردی ہے اور ایک ایسا بلدیاتی نظام لانا چاہ رہے ہیں جس میں حقیقی اختیارات عوامی نمائندوں کے پاس نہ ہوں بلکہ حکمرانوں کی اپنی جیب میں ہوں۔
نئے نظام کے تحت:
ضلعی ناظم، تحصیل ناظم کے عہدے ختم کر کے چیئرمین، وائس چیئرمین، ضلع کونسل، میئر اور ڈپٹی میئر کے عہدے متعارف کرائے گئے ہیں۔
نئے نظام کے تحت ٹائون اور ضلعی ناظمین کی جگہ میونسپل کمیٹی، میونسپل کارپوریشن اور ضلع کونسل کے نام سے بلدیاتی ادارے قائم ہونگے۔
انتخابات کے بعد ڈی سی او کا عہدہ ختم کر کے اس کی جگہ سابقہ عہدہ ڈپٹی کمشنر بحال کر دیا جائیگا۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ڈی سی او کا عہدہ ختم ہو گا جبکہ اس کے اختیارات میں مزید اضافہ ہو گا اور سارے نظام کا مکمل کنٹرول وزیراعلیٰ اور بیوروکریسی کے پاس ہی رہے گا۔ عوامی نمائندے صرف کاغذی کارروائیوں کی حد تک ہونگے۔
دوسری جانب ترقیاتی کاموں سے لیکر انتظامی امور کی مکمل دیکھ بھال ضلعی بیوروکریسی ہی انجام دے گی جس کے باعث بلدیاتی الیکشن میں کثیر رقم لگا کر کامیابی حاصل کرنے والے عوامی نمائندوں کا مکمل انحصار میئر یا ڈپٹی میئر کے بجائے بیوروکریٹس پر ہوگا جس سے ون مین شو کو فروغ ملے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام اس ملک میں صرف اشرافیہ اور چند مقتدر خاندانوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کیلئے وضع کیا گیا ہے اس لیے بلدیاتی نظام میں بھی تبدیلی کر کے ایک بار پھر عوامی اختیارات کو اشرافیہ کے ہاتھوں میں دینے کا بندوبست کیاگیا ہے۔