اہم مقامات

تاریخی عمارتیں:

وہاڑی میں سناتن دھرم مندر کی تعمیر قیام پاکستان سے قبل 1940ء میں شروع ہوئی۔ مندر کی بنیاد سیٹھ بھولا ناتھ رام داس اگروال نے رکھی تھی۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کی تحریک نے زور پکڑا تو مندر کی تعمیر رک گئی۔1992ء میں ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو وہاڑی میں بھی مسلمانوں نے احتجاجی جلوس نکالا اور عوام نے مشتعل ہو کر اس مندر پر حملہ کر دیا۔ مندر کی جگہ اب ٹرسٹ پلازہ بنا دیا گیا ہے۔ اب صرف مندر کا ایک مینار باقی ہے

میاں پکھی ریسٹ ہاؤس:

وہاڑی سے بورے والہ روڈ پر 22 کلومیٹر کے فاصلے پر اڈا پکھی موڑ سے ایک سڑک میاں پکھی کی طرف جاتی ہے جہاں بزرگ حضرت میاں پکھی کا مزار واقع ہے۔ جس وجہ سے اس آبادی کو میاں پکھی کہا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تاریخی عمارت کے نشانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں قیام پاکستان سے قبل میاں پکھی ریسٹ ہاؤس کی پرشکوہ عمارت اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ تاریخی اہمیت کی حامل تھی۔

جامع مسجد باغ والی:

وہاڑی کی تاریخی مسجد جامع مسجد باغ والی ہے جو شہر کے عین وسط میں ریل بازار اور کلب روڈ کے درمیان واقع ہے۔ یہ مسجد 1962ء میں تعمیر کی گئی۔ مسجد سے قبل اس جگہ پر باغ موجود تھا جس وجہ سے مسجد کا نام باغ والی مسجد رکھ دیا گیا

چڑیا گھر:

عید گاہ روڈ پر واقع ایک چڑیا گھر بھی ہے جو پنجاب حکومت نے 1988 میں وائلڈ لائف پارک کو بنایا تھا 16 ایکڑ اراضی پر مشتمل اس وائلڈ لائف پارک میں شیر، ہرن، نیل گائے کے علاوہ کئی قیمتی اور نایاب جانور موجود ہیں یہ پارک جنوبی پنجاب کا بہترین چڑیا گھر کا درجہ رکھتا ہے۔مشہور ساغات:وہاڑی کی مہشور سوغاتوں میں بابا گامے کا فالودہ، ثناءاللہ اور حبیب کے دہی بڑے بہت مشہور ہیں۔

میلسی سائیفن
میلسی سائیفن آمر پاکستان خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے جب پنجاب کے تین دریائوں کے پانی کو ہندوستان کے ہاتھوں فروخت کر کے قومی تاریخی اور ناقابل معافی جرم کا ارتکا ب کیا تو دریائے سندھ کے پانی کو دریائے چناب سے نکال کر دریائے راوی میں ڈالا گیااور سندھنائی میلسی لنک تعمیر کی گئی اسطرح سندھ اور پنجاب کے درمیاں پانی کے تقسیم کے مسئلے پر جھگڑے کی مستقل بنیاد رکھ دی گئی۔سندھنائی میلسی لنک کینال نے میلسی کی زراعت میں اہم کردار ادا کیاہے ۔غیر ملکی امداد کے ساتھ موضع نعمت علی دریائے ستلج پر میلسی شہر سے تقریباً 15کلو میٹر فاصلے پر فنی تعمیرات کا نادر نمونہ میلسی سائیفن1964میں تعمیر کیا گیا۔

جلہ جیم
جلہ جیم تحصیل میلسی کا بہت پرانا قصبہ ہے۔ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے بہت سے لوگوں کی رائے میں جلہ جیم میلسی شہر سےکافی پرانا ہے۔ سنئیر اخبار نویس محمد جاوید عزیز کی تحقیق اورمیاں عبدالسلام ایڈووکیٹ جوچھ مرتبہ میلسی بار کے صدربھی رہ چکے ہیں کے دعوے کے مطابق قصبہ جلہ جیم کی بنیاد ساڑھے چار سو سال قبل میاں عبدالسلام ایڈووکیٹ کے جد امجد حکیم میاں جلال الدین نے اپنے نام کی نسبت سے ڈالی ۔ جلہ جیم کا پرانا نام ” پرگنہ ہاکڑا ” تھا . جلال الدین کے بیٹے میاں رکن الدین نے جلہ جیم کی تاریخی بادشاہی مسجد 1058ھجری میں تعمیر کرائی.
گورنمنٹ پرائمری سکول جلہ جیم تعلیم کے بلند معیار اور تعلیمی وظائف کے حوالے سے مشہور رہا ہے۔ جلہ جیم میں اہلسنت دیو بند کی مشہور درسگاہ اشاعت القرآن قائم ہے ۔ جلہ جیم مہندی کے حوالے سے پاکستان بھر میں متعارف ہے ۔ جلہ جیم کے مشاہر میں حکیم میاں قمرالزمان مرحوم ۔ حاجی محمد رمضان مرحوم . ارشاد احمد خان مرحوم ۔ محمود حیات خان عرف ٹوچی خان ۔ میاں جمال محمد ۔ چوہدری رحیم بخش ۔ عبدالرحمن خالد ۔ رائو رفیق احمد ۔ ڈاکٹر فضل کریم ۔ میاں شعیب ارائیں۔ میاں عبدالمالک ۔ جہانگیر خان . یاسر خان ۔ ماسٹر نذیر محمد ۔ ملک عبداﷲ ۔ غلام مرتضی بھٹی وغیرہ شامل ہیں ۔
جلہ جیم کی ممتازسیاسی و سماجی شخصیت حکیم قمر الزمان نے 1947میں مہاجرین کی آباد کاری میں بھر پور تعاون کیا۔ اور ایک تا حیات مہاجرین کے معاون رھے .

خانپور
تحصیل میلسی کے قدیم قصبات میں قصبہ خانپور بھی شامل ہے قیام پاکستان سے پہلے ہندو روساء کھیم راج بترا اور مرلی دھر بترا وغیرہ اس قصبے میں رہتے تھے۔بترا فیملی کا شمار بڑے نوابین میں ہوتا تھااور انکے رؤسائے فدہ کے ساتھ سماجی تعلقات تھے ۔قیام پاکستان کے بعد کثیر تعدادمیں مہاجر راجپوت سید ارائیں یہاں آباد ہوئے ۔کیپٹن قطب خان (ایم ایل اے)کا تعلق بھی اسی قصبہ سے تھا ۔کیپٹن قطب خان کا نام تاریخی حوالے سے اس لئے ضروری ہے کہ اس نے دونوں عظیم جنگوں میں حصہ لیا اور حکومت بر طانیہ سے بہادری کے اعزازات حاصل کئے اس قصبے کے ایک اور سماـجی کارکن حاجی دوست محمد عرف چن میاں نے بڑی عزت اور شہرت پائی ۔دوست محمد عرف چن میاں نے خان پور میں بنیادی مرکز صحت کیلئے قطعہ اراضی عطیئے کے طور پر دیا۔دوست محمد عرف چن میاں متعدد بار یونین کونسل فدہ کا وائس چیئر مین منتخب ہوا۔چن میاں1997میں ہمیشہ نامعلوم رہنے والے دہشت گردوں کے ہاتھوں جا ںبحق ہوا۔خانپور میں روحانی پیشوا غازی پیر گیلانی کے مزار کے پہلو میں برگد کا ایک قدیم درخت ہے ۔کنور ممتاز احمد خان ،کنور ریاض احمد خان مشہور شاعر ،صحافی مرید عباس خاور ،رائو محمد اکرم ایڈووکیٹ ،سید مصدق حسین بخاری ،ڈاکٹر مہر خادم حسین ،سید فتح دریا شاہ گیلانی،شمشیر حسین ایڈووکیٹ ،چوہدری انعام اللہ (اسسٹنٹ انجینیئر)کنور محمد خالد ایڈووکیٹ کا تعلق قصبہ خان پور سے ہے ۔پنجابی فلم شیرا ڈاکو کے حقیقی کردار شیر محمد عرف شیرا ڈاکو کا تعلق بھی قصبہ خانپور سے ہے جو اپنی زندگی میں پولیس کے لئے چیلنج بنا رہا اور ایک دن پاکستا ن میں مروجہ پولیس مقابلے میں جاں بحق ہو گیا۔