بوریوالہ کے رہائشی محمد سلیم جو گنے کی ریڑھی لگا کر گزر اوقات کرتے ہیں تاہم انہوں نے تن سازی جیسا مہنگا شوق پال رکھا ہے۔
32 سالہ محمد سلیم نے سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بچپن ہی سے تن سازی کا شوق رہا ہے۔
“میرے محلے میں ٹیٹو قصائی نامی لڑکا رہتا تھا جو باڈی بلڈنگ کرتا تھا اور محلے کے لڑکے اس سے اتنا متاثر تھے کہ اسے “ٹارزن” کے نام سے پکارتے تھے۔ میرے دوست نے ایک دن مجھے چیلنج کیا کہ میں اس جیسا کبھی نہیں بن سکتا ۔بس اسی ضد پر جیم جوائن کیا اور اب قومی سطح پر بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکا ہوں۔
سلیم نے تن سازی بارہ سال کی عمر میں شروع کی اور آغاز میں علاقائی سطح پر مختلف ٹائٹل اپنے نام کیے۔
سنہ 2007ء میں انہوں نے تن سازی کے پہلے بڑے مقابلے میں حصہ لیا اور تحصیل کی سطح پر مسٹر بوریوالہ اور بعد ازاں ضلع سطح کے مقابلے مسٹر آئرن مین کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ضلع میں پہلی فتح پر انتہائی خوشی ہوئی اور آگے بڑھنے کا جنون اور بڑھ گیا۔
اس کے بعد 2010ء میں ضلع کی سطح کے دو مقابلوں میں حصہ لیا مسٹر وہاڑی اور مسٹر اولمپیاء کے ٹائٹل جیتے۔
انہوں نے کہا کہ محنت اور مسلسل کوشش جاری رکھی حالانکہ گھریلو حالات زیادہ بہتر نہ تھے لیکن اپنی منزل کے حصول کے لیے قدم بڑھاتا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ میں تین مقابلوں میں حصہ لیا مسٹر ملتان ڈویژن، ملتان ڈویژن مسٹر اولمپیاء اور مسٹر ساؤتھ پنجاب کے بڑے مقابلوں میں مختلف ڈیپارٹمنٹس کے بہترین کھلاڑیوں کو مات دی اور ٹائٹل حاصل کیا۔
سلیم نے بتایا کہ 2017ء کے لیے بڑے معرکے کا ارادہ کیا اور چار ماہ کی مسلسل محنت کے بعد مسٹر پنجاب اور مسٹر پاکستان کے مقابلوں میں حصہ لیا۔
انیس مارچ 2017ء کو لاہور میں پنجاب باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ہونے والے مسٹر پنجاب مقابلے میں دوسرے نمبر پر آیا اور چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔
اس کے فوری بعد یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد میں ہونے والے مسٹر پاکستان کے مقابلوں میں حصہ لیا جہاں ملک بھر سے بہترین تن سازوں نے شرکت کی اس کے علاوہ پنجاب پولیس، پاکستان آرمی، واپڈا، پاکستان ریلوے کے بہترین کھلاڑیوں نے بھی حصہ لیا۔
مسٹر پاکستان کے مقابلے میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور کانسی کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا۔
انہوں نے بتایا کہ صوبائی اور ملکی سطح کے دونوں مقابلوں میں ڈیپارٹمنٹس کے کھلاڑیوں کو دھول چٹائی حالانکہ ان کی کوچنگ ملک کے معروف کوچز نے کی جب کہ میں نے کسی کوچ کے بغیر تیاری کی۔
سلیم بتاتے ہیں کہ پنجاب اور ملکی سطح کے مقابلے کے لیے چار ماہ قبل تیاری شروع کرنا ہوتی ہے اور اخراجات کا اندازہ لگایا جائے تو جہاں محنت زیادہ کرنا پڑتی ہے وہیں خوراک اور دیگر مد میں دو سے ڈھائی لاکھ روپے خرچ آ جاتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں میں ذریعہ روزگار گنے کے جوس کی ریڑھی ہے لیکن اپنے شوق کو پروان چڑھانے کے لیے کمیٹی ڈالتا ہوں اس کے علاوہ دوست بھی رقم سپانسر کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں پاکستان کا واحد تن ساز ہوں جو کسی کوچ کے بغیر ملکی اور صوبائی سطح پر میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔
سلیم کا کہنا ہے کہ 2008 سے وہ بوریوالہ کے سٹی سنٹر میں موجود ایک جم میں کوچنگ کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جِم نوجوانوں کے لیے اس لحاظ سے اچھا ہے کہ وہ منشیات اور بری صحبت سے بچ کر اپنی توجہ مثبت کاموں کی طرف لگاتے ہیں۔
محمد سلیم آئندہ سال مسٹر پاکستان کا ٹائٹل جیتنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خواب کو سچ کر کے اپنے شہر اور صوبے کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں تاہم ایسے کھلاڑیوں کو حکومتی سطح نہ سراہا جانا ان کی حوصلہ شکنی اور کھیلوں سے دشمنی کے مترادف ہے۔