
جلہ جیم کے رہائشی مقامی بزرگ کے مطابق یہ حویلی تقریباً 180 سال پرانی ہے
تحصیل میلسی کے علاقے جلہ جیم میں ہندوستان کے مشہور دت خاندان کی تاریخی حویلی واقع ہے جو اپنے مخصوص اور دیدہ زیب طرز تعمیر کی بدولت اپنی مثال آپ ہے مگر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے حویلی کی تاریخی عمارت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
تحصیل میلسی ضلع وہاڑی کی قدیم ترین تحصیل ہے جہاں آبادی اور انسانی تاریخ کے کئی سو سال پرانے قدیم آثار ملتے ہیں۔
میلسی میں اورنگزیب عالمگیر کی بنائی ہوئی مساجد ملک واہن اور جلہ جیم میں واقع ہیں اس کے علاوہ وہاڑی کے پہلے حکمران فتح خان جوئیہ کا مقبرہ بھی وقت کے بے رحم تھپیڑے برداشت کر رہا ہے۔

جلہ جیم میں دو حویلیاں ایک ہی نقشے کے مطابق بنائی گئی تھیں
تحصیل میلسی کی قدیم ترین بستی جلہ جیم میں تقسیم ہند سے پہلے ہندو کمیونٹی آباد تھی جہاں دو شاندار حویلیاں ایک ہی نقشے کے مطابق بنائی گئی تھیں۔
ان دو حویلیوں میں سے ایک حویلی متروک ہو چکی ہے جبکہ دوسری حویلی آج بھی اپنی باقیات بچانے کے لیے محکمہ آثار قدیمہ کی منتظر ہے۔
میونسپل پبلک لائبریری کے چیف لائبریرین سید وقاص سعید ضلع وہاڑی کی تاریخ پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس میں ضلع کی تاریخی حثیت اور تاریخی مقامات کو شامل کرنے کے لیے ریسرچ کر رہے ہیں۔

اس تاریخی حویلی میں اب میلسی کے ایک تاجر کرایہ پر رہائش پذیر ہیں
سید وقاص سعید نے سجاگ کو بتایا کہ ان دو حویلیوں کے بارے میں اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ ان حویلیوں میں دت خاندان آباد تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جلہ جیم کے بزرگوں اور تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں حویلیاں ہندوستان کے معروف فلم سٹار سنجے دت کے والد سنیل دت اور ان کے رشتے داروں کی مللکیت تھیں جو تقسیم کے وقت ہجرت کر گئے تھے۔
جلہ جیم کے رہائشی 85 سالہ اللہ بخش بتاتے ہیں کہ حویلی کا طرز تعمیر شاہانہ ہے جس کی لکڑی کی چھتیں، بالکونیاں، ٹیرس، کھڑکیاں اور حویلی میں ہوا کے گزر کا بندوبست دیدنی ہے۔

یہ تاریخی حویلی میلسی میں موجود تاریخی بادشاہی مسجد کے قریب واقع ہے
ان کے مطابق یہ حویلی تقریباً 180 سال قبل بنائی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ دت خاندان کے آباؤ اجداد کی تصویریں حویلی کی دیواروں پر آویزاں تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی باقیات بھی کھو گئی ہیں۔
جلہ جیم کے رہائشی ٹی ایم اے میلسی کے ملازم محمد اعجاز نے بتایا کہ یہ تاریخی حویلی قدیم بادشاہی مسجد کے پاس واقع ہے جو واقعی طرز تعمیر کا نادر شاہکار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب یہ حویلی مغل خاندان کی ملکیت ہے جو جلہ جیم چھوڑ کر خانیوال ضلع کے علاقہ ماہنی سیال میں آباد ہو گئے ہیں اور یہ حویلی میلسی کے ایک تاجر کے پاس کرایہ پر ہے۔
“سنیل دت اور ان کا خاندان تقسیم ہند سے قبل جلہ جیم میں آباد تھا یہ حویلی اور جلہ جیم میں ہی پاکستانی ہٹی کے نام سے ایک اور تاریخی عمارت میں یہ خاندان آباد رہا ہے۔”

حویلی تقریباً سات مرلے رقبے پر مشتمل ہے
اعجاز کے مطابق ان کے بزرگوں نے ٹی وی پر سنیل دت کا انٹرویو دیکھا تھا جس میں انہوں نے سنا کہ وہ جلہ جیم سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جلہ جیم ایک گنجان آباد تاریخی قصبہ ہے ماضی کی اس شاندار حویلی کا رقبہ تو صرف سات مرلے ہو گا مگر دیکھنے والا اب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اللہ بخش اور جلہ جیم کے دیگر بزرگ شہریوں کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑے شہروں کی طرح چھوٹے شہروں کے آثار قدیمہ پر بھی حکومت خاص توجہ دے۔
انہوں نے کہا کہ اس تاریخی ورثے کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم آنے والی نسلوں کو اپنی تاریخ سے روشناس کروا سکیں۔