166

سرائیکی زبان، تحریک اور سیاسی ناکامیوں کے بُنیادی عوامل سرائیکی زبان، تحریک اور سیاسی ناکامیوں کے بُنیادی عوامل

سرائیکی زبان، تحریک اور سیاسی ناکامیوں کے بُنیادی عوامل

سرائیکی زبان، تحریک اور سیاسی ناکامیوں کے بُنیادی عوامل

ذوالفقار علی لُنڈ

سرائیکی زبان کم و بیش پورے پاکستان میں سمجھی اور بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔سرائیکی زبان ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، ڈیرہ اسماعیل خان، بھکر، ٹانک، میانوالی، خوشاب، ملتان، بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان، وہاڑی، لودھراں، جھنگ اور پاک پتن کے اضلاع میں بولی جانے والی اکثریتی عوام کی زبان ہے۔

یہ زبان سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں بھی اچھی خاصی تعداد میں بولی اور سمجھی جاتی ہے

1960ء کی دہائی میں سرکاری دستاویزات خصوصا مردم شماری میں مادری زبانوں کے کالم میں سرائیکی زبان کو شامل کرنے کے مطالبے سے سرائیکی قومی حقوق کی تحریک کا آغاز ہوا۔ یوں سرائیکی تحریک ابتدا میں ایک ثقافتی، لسانی تحریک ہی تھی لیکن زبان، شناخت اور ثقافتی حقوق کی جدوجہد دوسرے معنوں میں سیاسی جدوجہد ہی ہوتی ہے۔

یہ تحریک مختلف ادوار میں اُبھرتی اور کمزور ہوتی رہی۔اس تحریک کے اُتار چڑھاؤ میں بہت سارے عوامل کارفرما رہے۔ جہاں اس تحریک کو سرائیکی ادبی حلقے نے زندہ رکھا وہاں طاقتور سیاسی مراکز کی طرف سے اسے زک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی جس کی وجہ سے آج تک اس تحریک سے وابستہ لوگ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہی رہے ہیں۔

اس تحریک کی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسے بیرونی و اندرونی دونوں محاذوں پر شدید مسائل کا سامنا رہا ہے۔

بیرونی عوامل میں تخت لاہور کی ہر شعبے میں اجارہ داری، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں قوم پرست تحریکوں اور سیاسی جماعتوں کے سیاسی مفادات سے فطری ٹکراؤ خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ خاص کر پونم کا کردار اس تصادم کی جیتی جاگتی مثال ہے جس کا تلخ تجربہ سرائیکی تحریک سے وابستہ سرگرم کارکُنوں کو آج تک نہیں بھولا۔

ان بیرونی عوامل کی سرائیکی تحریک کی مُخالفت کی وجوہات تھوڑی سی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے۔ کیونکہ ہر قوم اور خطے میں بسنے والے عوام اور حُکمرانوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جن پر قائم رہنا ایک فطری عمل اور سیاسی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔اس طرح کے تضادات ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو مختلف اوقات میں سیاسی بے چینی اور کبھی کبھار پُر تشدد تحریکوں کا باعث بنتے ہیں۔

اگرچہ سرایئکی تحریک اپنے آغاز سے لے کر آج تک پُرامن تحریک رہی ہے کیونکہ یہ اُس سطح تک آج تک منظم نہیں ہو سکی جہاں یہ اپنے زور بازو سے سرائیکی مخالف قوتوں کا مقابلہ کر سکتی۔

اب یہاں پر ایک بہت ہی بُنیادی اور اہم سوال جنم لیتا ہے کہ بہت بڑی آبادی، جغرافیہ اور قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجود یہ تحریک ریت کی دیوار کیوں ثابت ہوتی رہی؟

اس کا جواب دینا کافی جوکھم بھرا ہو سکتا ہے مگر ہمیں تاریخی واقعات اور اس تحریک سے جُڑے اہم کرداروں کی سیاسی حکمت عملی کو تنقیدی نظر سے دیکھنا ہو گا تاکہ حقائق سے پردہ اُٹھ سکے۔

سرائیکی خطے کے بیشتر عوام مزدور پیشہ، کسان اور چھوٹی موٹی نوکریاں کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ اس طرح کا طبقہ سوشلزم کی شکست اور سرمایہ داری کی فتح کے بعد پوری دُنیا میں طبقاتی طور پر لاوارثوں کی طرح زندہ رہ رہا ہے۔

ماضی میں اس تناظر کو پرکھنا چاہیں تو اس تحریک کے تانے بانے ایسے شخص سے ملتے ہیں جو سوشلزم کا حامی اور سیکولر کردار کا مالک تھا۔

اس تحریک کا آغاز بھی اُسی دور میں ہوا جب سرمایہ داری اور سوشلزم ایک دوسرے سے بہت شدت کے ساتھ نبرد آزما تھے۔ اُس زمانے میں مزدور طبقے اور کسانوں میں سیاسی شعور پروان چڑھ رہا تھا جس کا تعلق طبقاتی سوال سے جُڑا ہوا تھا۔

اگر آپ اُس دور کے بڑے بڑے سرائیکی قوم پرستوں کے شخصی میلانات اور سیاسی رجحانات کا تجزیہ کریں تو سب کے سب بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قوم پرست تھے جن میں اُستاد فدا حسین گاڈی کا نام خاصا مشہور اور غیر متنازع ہے۔

انہوں نے خطے کے لوگوں کو طبقاتی سوال کے ساتھ ساتھ تہذیبی شعور سے بھی آگاہ کیا جس میں ثقافتی میلوں کو بطور سیاسی پلیٹ فارم کے بروئے کار لایا گیا۔

سیاسی تھیٹر، جُھومر، سٹڈی سرکل، ثقافتی حال احوال اور عورتوں کی شمولیت جیسے عوامل کو استعمال کر کے لوگوں کو بڑے پیمانے پر وسیب میں جوڑ تو دیا گیا مگر اُس وقت کے سیاسی حالات اور رجحانات تیزی سے بدل رہے تھے۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے بائیں بازو کے زیادہ تر افراد نے پیپلز پارٹی کو اپنا فطری الائی سمجھ کر اپنے آپ کواس جماعت سے مُنسلک کر لیا۔ شاید اُن کے ذہن میں یہ ہوگا کہ اس طریقے سے وہ سیاسی قوت حاصل کر کے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔

مگر بدقسمتی سے ایسا ہوا نہیں کیونکہ پیپلز پارٹی اپنے اندرونی بحرانوں کی وجہ سے مظلوم قوموں کا مقدمہ اُس طریقے سے نہیں لڑ سکی جس کی توقع سرائیکی خطے کے قوم پرست اس سے کر رہے تھے۔

ویسے بھی پنجاب نے اپنی بالا دستی قائم رکھنے کی خاطر نسبتا سیکولر اور قومی حقوق کی بات کرنے والی جماعتوں کو ہمیشہ نشانے پر رکھا جس کا سب سے زیادہ نقصان بھی پیپلز پارٹی کو ہی اُٹھانا پڑا۔

تاریخ گواہ ہے  پیپلز پارٹی نے جب بھی مظلوم قوموں کے حقوق کی بات کی اُسے پنجاب کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے شدید مُخاصمت کا سامنا کرنا پڑا۔

بھٹو کے قتل کے بعد عام لوگوں میں جو مایوسی پھیلی اُس نے غیر سیاسی رجحانات کو پروان چڑھایا اور نظریاتی سیاست کو بھی شدید زک پہنچائی جس کا اثر سرائیکی سیاست کرنے والے قوم پرستوں پر بھی صاف نظر آتا ہے۔

بہت سے سرائیکی دانشوروں اور لیڈروں نے پیپلزپارٹی سے اپنے راستے الگ کر لیے اور انہوں نے طاقت کے اصل وارثوں کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا۔شاید انہوں نے سوچا ہو کہ ’اُن‘ کی رضا مندی کے بغیر پاکستان میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ مگر اس عمل کے نتیجے میں عوام  کا ان پر سے اعتبار آٹھ جاتا ہے اور وہ شارٹ کٹ کے ذریعے سے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔جس کا اثر آج سرائیکی تحریک پر صاف نظر آتا ہے۔

یہ اثرحالیہ دنوں میں سینٹ میں پیش کیے جانے والے قومی زبانوں کے دو بلوں کے تنازعہ کے بعد کی صورت حال سے اُبھر کر سامنے آیا۔ جس میں سرائیکی شناخت کو مختلف مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کی سیاست سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔

اس کا ری ایکشن خاصا جذباتی اور ہیجانی ہے کیونکہ مُختلف مفادات رکھنے والے سرائیکی تحریک کے سٹیک ہولڈرز اس نقصان کی بھرپائی کرنے کی بجائے اسے ایک دوسرے پر غُصہ نکالنے کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

اپنی طاقت کو مُنظم کرنے کی بجائے غیر سیاسی سوچ اور غیر منطقی انداز سے یوں لڑنا انتہائی افسوسناک اور پسماندہ رویے کا عکاس ہے۔

ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ پاور پالیٹکس میں سیاست کے رُخ کا تعین نظریات سے زیادہ طاقتوروں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہےاس لیے پیپلز پارٹی نے بھی اپنے تئیں ماضی کے اسباق کو مد نظر رکھتے ہوئے درست فیصلہ کیا ہے۔

مگر ایسے معاشروں کا کیا کیا جا سکتا ہے جہاں دلائل اور سیاسی معروضی حالات کا جائزہ لیے بغیر ذاتی تعصبات، نظریات اور مفادات کواجتماعی مفادات پر فوقیت دینا لازم سمجھ لیا گیا ہو؟

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مٹی سے جُڑے  زمین زادوں کے یہ طور اطوار نہیں ہوتے جو ہمیں سرائیکی تحریک سے جُڑے لوگوں کی طرف سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

ذاتیات پر مبنی اس چپقلش کا انجام ہمارے اندرونی اور بیرونی دُشمنوں کو اور مضبوط کرے گا جس کا انجام مزید ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں ہمیں اپنی منزل سے اور دور کر دے گا۔

ہمیں کسی بھی سیاسی جماعت کا ترجمان بننے یا شدید مُخالفت کرنے کی بجائے بیچ کا راستہ اپنانا چاہیے اور اس خطے کے معاشی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کیلئے عوام میں رابطہ سازی کے ذریعے سرائیکی صوبے کو عوامی مطالبہ بنا کر پیش کرنا چاہیے تاکہ پاور پالیٹکس کی سیاست کرنے والی جماعتوں کو اس ایشو کو اُٹھانے میں دلچسپی کا سامان موجود ہو۔

مگر بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں