ضلع وہاڑی کپاس کی کاشت کے حوالے سے آئیڈیل علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اسے ’’کاٹن کنگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن گزشتہ چند سال سے کاشتکاروں کو کپاس سے وہ ثمرات حاصل نہیں ہو رہے جو اس علاقے کی خاصیت ہے۔
کپاس کی کاشت بارے مفید مشوروں، ممکنہ مسائل اور ان کے حل اور نئی ریسرچز بارے کسانوں کو آگاہ کرنے کے لیے محکمہ زراعت توسیع اور کراپ لائف پاکستان کے اشتراک سے نجی میرج ہال میں سیمینار برائے ‘فروغ کپاس’ منعقد کیا گیا۔
سیمینار میں صوبائی سیکرٹری زراعت کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود، ڈائریکٹر جنرل زراعت توسیع ظفر یاب حیدر، کاٹن ریسرچ باٹنسٹ ڈاکٹر غلام سرور، ممبران صوبائی اسمبلی میاں ثاقب خورشید، چودھری محمد یوسف کسیلیہ، شمیلہ اسلم، نمائندہ ایف ایم سی نجم الحسن سمیت متعدد کاٹن ریسرچرز، پیسٹی سائیڈ کمپنیوں کے نمائندگان اور سینکڑوں کسانوں نے شرکت کی۔
ڈاکٹر غلام سرور نے خطاب میں کہا کہ کپاس کی فصل وہاڑی کے کسانوں کے لیے نئی نہیں اس کے باوجود ہر سال فی ایکڑ پیداوار بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی ہے۔
گزشتہ پانچ سالہ پیداوار کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہاڑی میں 2012 میں نو ہزار 526 بیلز پیداوار رہی 2013 میں نو ہزار 145بیلز، 2014 میں دس ہزار 277 بیلز 2015 میںچھ ہزار 343 جب کہ 2016 میں چھ ہزار 903 بیلز پیداوار رہی۔
انہوں نے بتایا کہ پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کسان ہر سال نئی قسم کے بیج کی تلاش میں رہتا ہے اگر وہ آزمائے ہوئے تصدیق شدہ بیج ہی کاشت کرے تو فرق واضح نظر آئے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ زمین کی تیاری فصل کی کامیابی میں بہت اہمیت رکھتی ہے کپاس کا پودا جب زمین سے باہر آتا ہے تو اس کے جڑیں نو انچ لمبی ہو چکی ہوتی ہیں جبکہ مکمل پودے کی جڑیں دس فٹ گہرائی تک جا سکتی ہیں جس کے لیے گہرائی میں ایک مرتبہ ہل چلانا از حد ضروری ہے لیکن کسان اسے معمولی بات سمجھ کر نذر انداز کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر غلام سرور کے مطابق خشک زمین میں کسی صورت ہل نہ چلایا جائے کیونکہ اس سے پاؤڈر بنتا ہے جس سے زمین کے مسام بند ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کپاس کی فصل بڑی مقدار میں زمین سے آرگینک مرکبات استعمال کرتی ہے لیکن اس کے بدلے میں کسان زمین کو وہ مرکبات واپس نہیں لوٹاتا جس سے پیداوار میں کمی آتی ہے۔ وہاڑی کی زرعی اراضی میں ان مرکبات کی مقدار 0.5 فیصد ہے جب کہ دو سے پانچ فیصد ہونا ضروری ہے۔
ڈاکٹر غلام سرور نے کہا کہ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سیڈ مافیا کی وجہ سے پیداوار پر برا اثر پڑ رہا ہے کہ جب کہ محکمہ زراعت کی جانب سے والی سیڈ کے حوالے سے بنائی جانی والی کمیٹیوں کے ممبران میں نوے فیصد سیڈ مافیا کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔
ڈی جی زراعت ظفر یاب حید ر نے خطاب میں کہا کہ پنجاب میں ساٹھ لاکھ ایکڑ کا ہدف ہے جس کے حساب سے فی ایکڑ پیداوار 21.25 بنتی ہے۔ اس وقت تک 49 لاکھ 38 ہزار ایکڑ کاشت ہو چکی ہے۔
آئندہ بجٹ میں تمام زرعی مداخل پر ٹیکس صفر کر دیا جائے گا جس سے کاشتکاروں کو لاگت کی مد میں فائدہ ہو گا۔ “سیکرٹری زراعت محمد محمود”
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال سے 51.87 فیصد کپاس زیادہ کاشت کی جائے گی۔
محکمہ زراعت کے مطابق تین مرحلوں میں کسانوں کی ٹریننگ کی گئی پہلا مرحلہ یکم جنوری سے 15 فروری تک تھا جس میں دو لاکھ 22 ہزار 79 کسانوں کو تربیت دی گئی دوسرے مرحلے میں 16 فروری سے 31 مارچ تک ایک ہزار 98 ہزار 386 کسانوں کی تربیت کی گئی جب کہ تیسرا مرحلہ یکم اپریل سے 15مئی تک تھا جس میں ایک لاکھ81 ہزار 543 کسانوں کی تربیت کی گئی۔
اس کے علاوہ کپاس چننے والی خواتین کی بھی تربیت کی جا رہی ہے تاکہ وہ صاف ستھرے انداز میں چنائی کر سکیں۔
سیکرٹری زراعت کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود نے کہا کہ پنجاب میں کپاس کی کاشت کا حدف ساٹھ لاکھ ایکڑ ہے جو کسانوں کے تعاون سے ہر حال میں پورا کریں گے۔ک یونکہ کپاس بین الاقوامی فصل ہے ملکی قیادت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی منڈیوں کی نظریں بھی وہاڑی جیسے کپاس کے لیے موزوں علاقوں پر لگی ہوئی ہیں۔
محمد محمود نے بتایا کہ اگر کسان کو ریلیف مل سکتا ہے تو وہ صرف زرعی مداخل کی قیمتوں میں کمی پر مل سکتا ہے۔اسی لیے کھاد، مشینری، بجلی کی قیمت میں کمی اور بلا سود قرضوں کی فراہمی کے حوالے سے کام کر رہے ہیں تا کہ کسان کی حالت بہتر ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں تمام زرعی مداخل پر ٹیکس صفر کر دیا جائے گا جس سے کاشتکاروں کو لاگت کی مد میں فائدہ ہو گا اور وہاڑی میں کپاس کا دور پھر سے آئے گا۔
فیلڈ اسسٹنٹ کی کم آسامیوں بارے انہوں نے بتایا کہ پنجاب بھر میں 750 پوسٹیں خالی ہیں جن پر کی بھرتی دو ماہ میں مکمل کر لی جائے گی۔
انہوں نے کسانوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کپاس کاشت کریں اس بار گزشتہ کئی سال کا منافع ہو گا اگر کسی کسان کو کپاس کی فصل میں نقصان ہوا تو وہ ہم اس کے گھر جا کر پورا کریں گے۔
محکمہ زراعت کی جانب سے منعقد ہونے والا فروغ کپاس سیمینار ایک ماہ تاخیر سے کروایا گیا کیونکہ کپاس کی کاشت کا آغاز 15 اپریل سے کر دیا گیا تھا۔ اور اب پچاس فیصد سے زیادہ بجائی کی جا چکی ہے۔
سیکرٹری زراعت کی جانب سے زراعت کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے آئندہ چند سال میں کسان کی حالت بہتر ہونے کی توقع ہے۔