ضلع وہاڑی کی تین تحصیلوں میں لگ بھگ پونے آٹھ سو گاؤں ہیں جن میں سے 133 گاؤں ایسے ہیں جن کی آبادی پانچ ہزار سے زائد ہے۔
ان افراد کو فراہم کی گئی صحت کی سہولیات کی بات کی جائے تو ضلع بھر میں 115 بنیادی مراکزِ صحت اور ڈسپنسریاں چودہ دیہی مراکزِ صحت اور چار بڑے ہسپتال شامل ہیں۔
آبادی کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ سہولیات یہاں بسنے والے افراد کے لیے ناکافی ہیں۔
جہاں یہ سہولیات ناکافی ہیں وہیں پر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آیا ان ہسپتالوں میں ڈاکٹرز، ادویات اور دیگر عملہ بھی موجود ہے یا نہیں۔
ایسا ہی ایک دیہی مرکزِ صحت وہاڑی کے نواحی گاؤں 87 ڈبلیو بی میں قائم ہے جس کا مقصد تو نزدیکی دس دیہات کی آبادی کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا تھا مگر ایسا ممکن نہ ہو پایا۔
یہ رورل ہیلتھ سنٹر پانچ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور یہاں ڈاکٹر اور دیگر عملے کی کل ملا کر 55 آسامیاں موجود ہیں۔
یہاں اس وقت 55 افراد پر مشتمل عملہ موجود ہے مگر مستقل ڈاکٹر تعینات نہ ہونے کی وجہ سے ڈسپنسر اور ڈینٹل ڈاکٹر ہی مریضوں کا معائنہ کر کے دوائی تجویز کر رہے ہیں۔
دیہی مرکزِ صحت میں مہینے میں تقریباً دو ہزار سے زائد مریض آتے ہیں جن میں سے اکثریت کو متعلقہ ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے بیس کلومیٹر دور ڈی ایچ کیو وہاڑی ریفر کر دیا جاتا ہے۔”ڈاکٹر عباس”
اہلِ علاقہ کے مطابق ہمیشہ سے ہی محکمہ نے اس ہیلتھ سنٹر کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہے۔
رورل ہیلتھ سنٹر میں تعینات ڈاکٹر عباس بتاتے ہیں کہ ہر ہیلتھ سنٹر میں سینئر ڈاکٹر، ڈاکٹر، ڈینٹل سرجن اور ڈبلیو ایم او لازماً تعینات ہوتا ہے تاہم اس ہسپتال کے قیام سے لے کر اب تک یہاں پر سینئر ڈاکٹر محکمہ کی طرف سے تعینات ہی نہیں کیا گیا ہے جبکہ یہاں پر تعینات ڈاکٹر گلزار احمد کا ڈی ایچ کیو تبادلہ کر دیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ مرکزِ صحت میں مہینے میں تقریباً دو ہزار سے زائد مریض آتے ہیں جن میں سے اکثریت کو متعلقہ ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے بیس کلومیٹر دور ڈی ایچ کیو وہاڑی ریفر کر دیا جاتا ہے۔
“پچھلے تین ماہ سے ایکسرے مشین خراب پڑی ہے جو بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے ٹھیک نہیں کروا پائے۔”
محمد انور مذکورہ ہیلتھ سنٹر میں ڈسپنسر ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ محکمے کی طرف سے فراہم کی جانے والی ادویات بھی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں پر تو توجہ دے رہی ہے لیکں دیہات میں بسنے والی ستر فی صد آبادی کو دی جانے والی ان سہولیات کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے جس سے “صحت مند پنجاب” کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
مقامی رہائشی محمد اعظم خان نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں مستقل بنیاد پر ڈاکٹرز اور دیگر عملہ کو جلد از جلد تعینات کیا جائے کیونکہ یہاں آنے پر دوائی لکھنے یا دینے کی بجائے وہاڑی جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر علاج معالجہ کے لیے انہیں وہاڑی ہی جانا پڑنا تھا تو اس ہسپتال کی بنانے کی ایسی کیا ضرورت تھی۔
سماجی کارکن بابر جٹ نے بتایا کہ اکثر اوقات لوگ مالی تنگ دستی ہونے کی وجہ سے شہر میں موجود مہنگے ہسپتالوں میں علاج نہیں کروا پاتے اور علاقہ کے ہیلتھ سنٹر میں داکٹر نہ ہونے کی وجہ سے مرض کی بہتر انداز میں تشخیص نہیں ہو پاتی۔
انہوں نے کہا کہ صرف عمارتیں بنا دینے سے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے بلکہ عوام کے ٹیکس کو اس طرح برباد کرنے کی بجائے صحیح معنوں میں شہریوں کو طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔
“بلاشبہ رورل ہیلتھ سنٹر کا قیام حکومت کا احسن قدم ہے لیکن متعلقہ محکمہ صحت ان کو فعال رکھنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں کیونکہ ڈی ایچ کیو وہاڑی پچیس لاکھ آبادی کے لیے ناکافی ہے۔”
ڈاکٹر شعیب الرحمان چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ہیں۔
انہوں نے سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بلاشبہ رورل ہیلتھ سنٹر بے شک ابتدائی سطح پر امراض کے علاج کرنے کے لیے ڈی ایچ کیو کے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رورل ہیلتھ سنٹر 87 ڈبلیو بی میں ڈاکٹر کی تعیناتی کے لیے اُنہوں نے آرڈر سیکرٹری ہیلتھ کو بھیج رکھا ہے وہ جیسے ہی تقرری کے لیے اپروو کریں گے تو یہاں ڈاکٹر تعینات کر دیا جائے گا۔