ہمارے معاشرے میں خواتین کے سپورٹس میں حصہ لینے کو معیوب اور ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس گھٹن زدہ ماحول کے باوجود بھی وہاڑی شہر کی باہمت لڑکی کنول شازیہ بٹ نے عمان میں ہونے والی ایشین وومن پاور لفٹنگ چمپیئن شپ میں نہ صرف گولڈ میڈل حاصل کیا بلکہ اب وہ اولمپکس 2020ء میں گولڈ میڈل کے لیے پرعزم ہیں۔
شرقی کالونی وہاڑی کی 30 سالہ کنو ل شازیہ بٹ کا تعلق گاما پہلوان اور بھولو برادران کے خاندان سے ہے اوران کے بڑے بھائی سہیل بٹ بھی ریسلر ہیں جو ان کے کوچ ہیں۔
کنول شازیہ بٹ نے سجاگ کو بتایا کہ 22 سال کی عمر میں انہوں نے فزیکل فٹنس کے لیے جم جوائن کیا پھر جب پاکستان میں وومن سپورٹس کا آغاز ہوا تو انہیں بھی اس میں دلچسپی شروع ہوئی تو انہوں نے ویٹ لفٹنگ اینڈ پاور لیفٹنگ کی ٹریننگ شروع کر دی۔
ان کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب میں سرکاری طور پر ویٹ لیفٹنگ یا پاور لیفٹنگ کا کوئی بھی کلب موجود نہیں ہے مگر ان کے شوق کی وجہ سے بڑے بھائی نے گھر کے کمرے میں دس لاکھ روپے کے سامان کے ساتھ انہیں کلب بنا کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ 2013ء میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی وومن ویٹ لیفٹنگ نیشنل چیمپئن شپ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں منعقد ہوئی جس میں چاروں صوبوں اور اداروں کی ٹیموں نے شرکت کی جس میں پنجاب ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 75 کے جی کی اوپن کٹیگری میں براؤن میڈل حاصل کیا۔
اس محنت کو جاری رکھا اور 2014ء میں ایک بار پھر نیشنل چیمپئن شپ لاہور میں سلور میڈل حاصل کیا۔
کنول شازیہ بٹ نے بتایا کہ ایشین پاور لیفٹنگ ایسوسی ایشن کی طرف سے پہلی ایشین وومن پاور لیفٹنگ چیمپیئن شپ یکم تا چھ اکتوبر 2015ء کو عمان کے شہر مسقط میں ہوئی جس میں پاکستان کی تین رکنی ٹیم نے ان کی قیادت میں حصہ لیا۔
‘اس ٹورنامنٹ میں بھارت، پاکستان، ایران، کوریا، جاپان، سری لنکا، بنگلہ دیش، روس سمیت 17 ملکوں کی ٹیم نے حصہ لیا کنول بٹ نے 142 کلوگرام وزن کی لفٹ لگائی اور پاکستان کے لیے گولڈ میڈل حاصل کیا’
انہوں نے بتایا کہ جب وہ عمان میں مقابلے میں شرکت کے لیے گئیں تو وہاں قابل اعتراض یونیفارم پہننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اس مقابلے میں ٹراؤزر اور سکارف پہن کر حصہ لیں گی 12 ممالک کی ٹیکنیکل جیوری میں یہ قرارداد پیش ہوئی 12 میں سے سات ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور 17 اکتوبر 2015ء کو یہ قرارداد منظور کر لی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ اس قرارداد کی منظوری کے بعد سعودیہ سے ایک لڑکی نے اولمپکس 2016ء میں حصہ لیا اور براؤن میڈل حاصل کیا یہ میرے لیے خوشی کا مقام ہے میں نے جو کاوش کی اس سے مسلمان لڑکیوں پر ان کھیلوں میں حصہ لینے کے دروازے کھلیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ واپسی پر ڈائریکٹر جنرل سپورٹس بورڈ پنجاب نے انہیں ظہرانہ دیا اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرف سے تین لاکھ روپے انعام بھی دیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 2016ء میں ایشین وومن پاور لیفٹنگ چیمپئن شپ جے پور صوبہ راجھستان بھارت میں ہوئی مگر سرحدوں پر حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے ویزے نہ ملے اور اس میں شرکت نہ کر سکی۔
کنول شازیہ بٹ نے مزید بتایا کہ رواں سال ایشین وومن پاور لیفٹنگ چیمپیئن شپ سری لنکا میں ہوگی جس میں وہ پاکستانی ٹیم کی قیادت کریں گی اور گولڈ میڈل کے لیے پرعزم ہیں۔
اس کے علاوہ وومن پاور لیفٹنگ کا ورلڈ کپ نومبر 2017ء امریکہ میں ہوگا پاکستان کی طرف ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے وہ کوالیفائی کر چکی ہیں اور 2020ء کے امریکہ میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں حصہ لینے اور ملک کا نام روشن کرنے کے لیے پر امید ہیں۔
کنول بٹ کے بھائی سہیل بٹ نے بتایا کہ وہ 40 سال سے سپورٹس سے وابستہ ہیں انٹرنیشنل پاور لیفٹنگ براؤن میڈلسٹ ہیں اور پاکستانی ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشروں میں عورت کے ٹیلنٹ کو پرکھنا تو دور کی بات بلکہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا ہے۔
‘میں ایک کھلاڑی تھا میں نے معاشرتی رویوں، رشتے داروں اور مقامی لوگوں کی طنز و تنقید کی پراوہ کیے بغیر اپنی بہن کی اس کھیل کے لیے آٹھ سال تک تیاری کرواتا رہا۔ اس محنت کے بعد شازیہ نے گولڈ میڈل جیت کر ہمارے خاندان، شہر اور ملک کا نام روشن کر کے سب کو رشک میں ڈال دیا’۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت چھوٹے شہروں میں بھی کھیلوں کے فروغ کے لیے فنڈز فراہم کرے اور ویٹ لیفٹنگ اور پاور لیفٹنگ کے لیے کلب بنائے جائیں جہاں کھلاڑی تیاری کر سکیں۔