120

بادشاہی مسجد

میلسی کی

بادشاہی مسجد

مرید عباس خاور

وہاڑی کی تحصیل میلسی سے دس کلومیٹر دور وہاڑی روڈ پر بستی ملک واہن صدیوں سے آباد ہے۔

اس آبادی میں چھٹے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں گورنر لداخ کے حکم پر ایک مسجد بنائی گئی جسے بادشاہی مسجد کا نام دیا گیا۔

لوگ بتاتے ہیں کہ یہاں ملک واہن ایک تباہ شدہ ٹیلہ ہے جس پر کسی وقت میں پورا شہر آباد تھا۔ ستارویں صدی عیسوی کے آخر اور اٹھارویں صدی کے آغاز میں یہاں بادشاہی مسجد اور صوفی بزرگ خواجہ ابوبکر کا مزار بنایا گیا۔

1671 تا 1673 میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے حکم پر لاہور میں بادشاہی مسجد تعمیر کی گئی۔ بادشاہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لداخ جوکہ اس وقت گورنر ملتان تھے انہوں نے میلسی میں بھی اسی طرز پر بادشاہی مسجد بنوائی تاہم نیچے دی گئی تصویر اس بات کی تصدیق نہیں کرتی۔

ہری چند کے رہائشی طاہرعباس نے اپنے بزرگوں سے اس علاقے کی تاریخ کے متعلق کافی کچھ سن رکھا ہے۔ ان کے بزرگوں کے مطابق اس علاقہ میں اٹھارویں صدی کے آخر میں ایک زلزلہ آیا تھا جس مین تمام شہر تباہ ہو گیا صرف بادشاہی مسجد محفوظ رہی۔

میلسی کی بادشاہی مسجد میں لگائی گئی پلیٹ کے مطابق اس مسجد کی تعمیر 1058 ہجری یا 48-1647 عیسوی میں کی گئی۔

میلسی کی بادشاہی مسجد میں لگائی گئی پلیٹ کے مطابق اس مسجد کی تعمیر 1058 ہجری یا 48-1647 عیسوی میں کی گئی۔

اس علاقے میں بادشاہی مسجد سے متعلق ایک اور کہانی بھی مشہور ہے۔

کہا جاتا ہے کہ زلزلے کے وقت ایک خاندان کے دو بہن بھائی بھی اس شہر میں موجود تھے جن کے پاس قیمتی خزانہ تھا۔ جب زلزلہ آیا تو انہوں نت بادشاہی مسجد میں پناہ لی اور صرف وہی دو بہن بھائی محفوظ رہے۔

انہوں نے خزانہ بادشاہی مسجد میں ہی کہیں چھپا دیا اور خزانے کے بارے میں سرائیکی کا شعر مسجد کی دیوار پر لکھ دیا جوکہ کچھ یوں ہے؛

ست ہسّیاں، ست سونے دیاں مٹیاں

بھین بھراواں، ڈھلدے پچھاویں رکھیاں

جن کا مفہوم کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے

‘جب زلزلہ آیا تو شام کا وقت تھا۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ ہمیں اتنی مہلت ملی کہ ہم سات مالائیں ( نیکلس) اور سونے کی اشرفیوں سے بھری سات مٹیوں چھپا کر رکھ سکے۔

طاہرعباس مزید بتاتے ہیں کہ اورنگزیب کے عہد میں تانبے، چاندی اور سونے کے سِکّے بھی ہوتے تھے۔ ایسے سِکے ان کے علاقے میں اب بھی ملتے ہیں جن پر اورنگ زیب عالمگیر کا نام لکھا ہوتا ہے۔

حاجی غلام مصطفیٰ عجمی الہ آباد تحصیل میلسی کے رہنے والے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بادشاہی مسجد میں خزانے چھپے ہونے کی بات میں کوئی حقیقت نہیں۔

‘میرے بزرگوں نے بتایا تھا کہ خزانے کی خبر سن کر انگریز دور میں کچھ لوگ ساٹھ کلومیٹر دور ملتان سے ملک واہن آئے اور انہوں نے یہاں کھدائی بھی کی لیکن انہیں یہاں کچھ نہیں ملا۔’

اورنگ زیب کا دور واقعی خوشحالی کا دور تھا۔ 3.2 ملین مربع کلومیٹر سلطنت کے رقبے سے تین کروڑ چھیاسی لاکھ چوبیس ہزار چھ سو اسی پاونڈ کا ریونیو ملتا تھا۔ جو اس وقت دنیا میں کسی بھی سلطنت کا سب سے زیادہ ریونیو تھا۔

بستی ملک واہن میں بادشاہی مسجد سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر مشہور صوفی بزرگ خواجہ ابوبکر وراقؒ کا مزار موجود ہے جو کہ اپنی تعمیر کے لحاظ سے بادشاہی مسجد کا ہم عمر بتایا جاتا ہے۔

حضرت داتا گنج بخش ہجویری کی کتاب کشف المحجوب کے مطابق خواجہ ابوبکر وراق کا تعلق عراق سے تھا۔ ان کے میلسی میں آکر آباد ہونے کی تاریخ کے متلعق یقین کیساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم اس دربار پر کندہ تحریر اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ یہ خانقاہ سلطان اورنگزیب کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔

بعہدِ سلطان اورنگزیب عالم گیر ایں کمال
بناخانقاہ نمود ملک منیرفقیرحسن علی ولد جمال

گامے والے بستی کے غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ بادشاہی مسجد اور صوفی بزرگ خواجہ ابوبکر وراقؒ کا مقبرہ مغل تعمیرات کا شاندار نمونہ ہے۔

‘مسجد اور مزار دونوں کے اندرونی مقامات پر کیا گیا کاشی گری کا کام، ان کی محرابیں اور آیاتِ قرآنی کی کیلی گرافی مغل عہد کی یاد دلاتی تھی لیکن اب ان کی مرمت اور تعمیر کے وقت اس پہلو کو مدنظر نہیں رکھا جاتا جسکی بنا پر ماسوائے گنبدو محرابوں بادشاہی مسجد اپنی اصل خصوصیت کھو بیٹھی ہے۔’

بستی ملک واہن سے چند منٹوں کے فاصلے پر موضع دَھلو موجود ہے۔ اس موضع سے تعلق رکھنے والے محمد آصف بتاتے ہیں کہ کہ پہلے اس مزار کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مقامی سیاسی گھرانے بھابھہ کے پاس تھی جو گاہے بگاہے اس مزار کی مرمت کرواتے رہتے تھے لیکن اب اس مزار کی دیکھ بھال کا کام کسی اور کو دے دیا گیا ہے۔

محکمہ اوقاف وہاڑی کے ڈسٹرکٹ منیجر خالد محمود بتاتے ہیں کہ خانقاہ ابوبکر وراقؒ پر خصوصی نگران محمد حسین کو مقرر کیا گیا ہے جو نہ صرف عرس کے انتظامات، زائرین کی سہولیات کے امور بجالاتے ہیں بلکہ تاریخی مغلیہ دور کی عمارت کی حفاظت کے امور بھی نبھاتے ہیں۔

بادشاہی مسجد کے متعلق ڈسٹرکٹ منیجر کا کہنا تھا کہ بادشاہی مسجد ملک واہن ان کے چارج میں نہیں آتی، اس لیے وہ اس کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں