210

بورے والا کی ادبی شخصیت محمود غزنی

وہاڑی کی تحصیل بورے والا تعلیم، کھیل اور ادبی حوالے سے بہت سی انفرادی خوبیوں سے مالا مال ہے۔ ادبی حوالے سے بورے والا میں بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔

جن میں مجلس میاں محمد ایک ایسی ادبی تنظیم ہے۔ جس نے بہت سے نامور شعراء کو نہ صرف صوبائی بلکہ ملکی سطح پر بھی اس شہر کی پہچان بنایا ہے۔

اس تنظیم کے ایک رکن شاعر محمود غزنی بھی ہیں۔

محمود غزنی 16 اکتوبر 1956ء میں بورے والا کے ایک محنت کش گھرانے میں پیدا ہوئے۔

میٹرک تک تعلیم ایم سی سکول بورے والا اور ایف اے گورنمنٹ کالج بورے والا سے کیا۔

اسی دوران انہوں نے بورے والا ٹیکسٹائل ملز سے تین سالہ ٹیکنیکل ڈپلومہ حاصل کیا۔

1979ء میں گورنمنٹ ایلمنٹری کالج ساہیوال سے پی ٹی سی کا ایک سالہ کورس مکمل کر کے 1980ء میں بطور پی ٹی سی ٹیچر بھرتی ہوئے اور ایم سی بوائز سکول بورے والا سے ہی ملازمت کا آغاز کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی عارف بازار میں دوکاندار ہیں جبکہ دوسرے بھائی سمندری میں زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔

ان کے دو بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا ریلوے پولیس میں کانسٹیبل جبکہ چھوٹا بیٹا پاک فوج میں بطور سولجر ملازمت کر رہے ہیں۔

‘پہلا شعر 1966ء میں جب میں پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا اس وقت پڑھا تھا۔ تب میری نہ کسی شاعر سے ملاقات ہوئی تھی اور نہ ہی شاعری کے بنیادی نکات، ردیف، قافیہ، بحر اور وزن سے شناسائی تھی۔’

محمود غزنی نے بتایا کہ انکے ایک ہم جماعت رستم علی جو اس وقت امریکہ میں مقیم ہیں۔

‘رستم علی نے میرے کہے گئے مصرع کے مطابق اگلے دن ایک نظم استاد محترم کو سنائی۔ میں نے جب وہ نظم سنی تو سوچا کہ ایسی ہی نظم لکھنی چائیے۔’

    یہ شغل شعر تو آدھی صدی کا قصہ ہے
     ترا خیال تو اشعار سے بھی پہلے تھا۔

انھوں نے بتایا کہ شام سات بجے سے رات ایک بجے تک پانچ بندوں پر مشتمل ایک مذاحیہ نظم لکھی۔ جسے اگلے دن استاد محترم کی خدمت میں پیش کیا تو استاد محترم نے سن کر حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے کہا، کہ بیٹا ایسی نظم تو وہ خود بھی نہیں لِکھ سکتے۔

‘رستم علی خود تو شاعر نہ بن سکے تاہم مجھے شاعر بنا گئے۔’

محمود غزنی بتاتے ہیں کہ سال 2016ء میں ان کو شاعری کرتے پورے پچاس سال ہو جائیں گے۔

اپنی تصانیف کے بارے میں بتاتے ہیں کہ 1967 اور 68 میں شاعری کے دو کتابچے چھپوائے۔

اٹھائیس سال بعد انکی غزلیات کی پہلی کتاب ’’دشت کا تنہا سفر‘‘ لاہور کے ایک معروف اشاعتی ادارے الحمد پیبلی کیشنز نے شائع کی۔

‘دو سال بعد میں نے خود لاہور سے ہی کتاب کا دوسرا ایڈیشن چھپوایا۔ اب بیس سال بعد دوسرا مجموعہ کلام ’’ نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں ‘‘ اشاعت کے لیے بالکل تیار ہے۔’

‘شاعری میں بابا بلھے شاہ ایوارڈ، فیڈریشن آف سٹی ایمپائرز، گلوبل یوتھ ایوارڈ کے علاوہ بھی بہت سے ایوارڈز اور اعزازات لے چکا ہوں۔’

محمود غزنی کہتے ہیں کہ اگر کوئی شعر سننے والا شعر سن کر کانپ جائے اور اس کی پلکیں بھیگ جائیں تو یہ شاعر کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ گورنمنٹ کالج بہاولپور کے پروفیسر جبار شاہد اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے پروفیسر ڈاکٹر روبینہ رفیق کی زیر نگرانی انکے فن اور شخصیت پر ایم فل کا تھسیز مکمل کر چکے ہیں۔

شاعری میں شروع سے ہی دو شخصیات انکی پسندیدہ رہی ہیں، اسد اللہ خاں غالب اور احمد فراز۔ جن کی شاعری اور انکے اسلوب بیان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اور سمجھتا ہوں کہ شاعری کے اس خدادا فن کی بدولت ایک شاعر معاشرے کی اصلاح میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

محمود غزنی کا کہنا ہے کہ مشاعروں کا انعقاد ایک اچھی روایت ہے جسے جاری رہنا چائیے۔

ضلع وہاڑی کے وہ پہلے شاعر ہیں جن پر ایم فل کا تھیسسز مکمل کیا گیا ہے۔

‘میں نے اپنا پہلا شِعر 1968ء میں جب آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ بورے والا میں منعقدہ آل پاکستان مشاعرہ میں پڑھا تھا۔ اسکے علاوہ اب تک پاکستان بھر کے تمام نامور شعراء کرام کے ساتھ 100 سے زائد مشاعرے پڑھ چکا ہوں۔’

شاعر احمد فراز کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ بہت سی ملاقاتیں رہیں، بہت سے مشاعرے اکھٹے پڑھے اور سفر بھی اکھٹے کیے۔

وہ کہتے تھے کہ جس طرح آپ شاعری سے محبت کرتے ہو اسی طرح ادبی حلقے بھی آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔

محمود غزنی کے مطابق وہ اپنی شاعری میں غریب اور مظلوم طبقہ کے حالات کو اجاگر کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ وہ خود بھی اسی طبقے کے فرد ہیں۔

‘وسائل نہ ہونے اور ملازمت کے بندھن کی وجہ سے میرے اندر موجود شاعری کے کئی دیوان سِینے میں ہی دفن ہو کر رہ گئے ہیں۔’

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ادبی سرگرمیوں میں غیر معمولی کمی واقع ہوتی جا رہی ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

ملک کے ممتاز شاعر امجد اسلام امجد، محمود غزنی کی کتاب ‘دشت کا تنہا سفر’ اور اُنکی شعری کے متعلق کہتے ہیں کہ محمود غزنی کی غزل جدید غزلوں میں سے ایک غزل ہے۔

امجد اسلام امجد کی نظر میں آج کے شعراء کی جو مختلف پرتیں ہیں اور جس اعتبار اور کامیابی کے ساتھ محمود غزنی اپنے احساسات کو شاعری میں ڈھالتے ہیں۔ اس جیسی مثال نایاب نہیں تو کامیاب ضرور ہے۔

انہوں نے مسلسل اچھے شعر اور غزلیں کہہ کر اپنے فن کا ایک ایسا اعتبار قائم کیا ہے کہ شعرو ادب سے تعلق رکھنے والے تمام سنجیدہ حلقے انہیں جانتے اور مانتے ہیں۔

محمود غزنی کے متعلق کہتے ہیں کہ

ویرانیوں کو سوچ کے یہ، رکھ لیا ہے گھر

ان کو نہیں، خدا نے مجھے تو دیا ہے گھر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں