ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے لیے تعلیم حاصل کرنا تو دور اپنی زندگی کی گاڑی چلانے میں بھی بے حد مشکلات کا سامنا ہے۔
اگر ایسے میں وہ اپنی تمام تر توانائیاں حصول تعلیم کے لیے صرف کرتے ہیں اس سے بڑی ہمت کی مثال معاشرے میں ملنا مشکل ہے۔
ایسی ہی ایک باہمت طالبہ ضلع وہاڑی کے نواحی گاؤں 97 ڈبلیو بی کی رہائشی فرحانہ حنیف ہے جو دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں سے محروم ہونے کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
ہاتھ نہ ہونے کے باوجود اپنے الفاظ کو خاموش نہیں ہونے دیا اور بائیں پاؤں سے لکھ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

فرحانہ حنیف عام طالبات کی طرح امتحان میں شریک ہیں
حنیف پٹواری کی صاحبزادی بائیس سالہ فرحانہ حنیف نے نمائندہ سجاگ کے ساتھ خصوصی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پیدائشی طور پر دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں سے معذور ہے۔
فرحانہ بتاتی ہیں کہ سات سال کی عمر میں جب تھوڑی سمجھ بوجھ آنے لگی تو احساس ہوا کہ میں معاشرے کے دیگر افراد سے بہت مختلف ہوں۔ وہ اعضاء جنہیں بڑی نعمتیں شمار کیا جاتا ہے وہ اس کے پاس نہیں ہیں۔ لیکن احساس کمتری کا شکار ہونے کی بجائے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی’۔
‘آٹھ سال کی عمر میں جب میں نے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ناصرف سب حیران بلکہ پریشان ہوئے کیونکہ ہاتھوں کے بغیر تعلیم حاصل کرنا ہر کسی کے لیے نہ ممکن نظر آ رہا تھا۔ سب گھر والے مزید حیرت میں اس وقت گم ہوئے جب میں سے پیروں سے لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا’
فرحانہ بتاتی ہیں شروع میں لکھنا قدرے مشکل تھا لیکن سخت محنت اور کوشش کے بعد بائیں پاؤں سے لکھنا سیکھ لیا اور گاؤں کے سکول میں عام لڑکیوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے لگی۔
انہوں نے کہا کہ شروع میں تو سکول کی طالبات اور دیگر بچوں نے مزاق اڑایا جس سے حوصلہ جواب دینے لگا لیکن جلد سب طالبات نے مجھ پر ہنسنے کی بجائے میرے ساتھ ہنسنا شروع کر دیا اور دوستی کر لی۔

فرحانہ حنیف بائیں پاؤں سے خوش خط انگریزی اور اردو لکھ سکتی ہیں
فرحانہ کے مطابق آٹھویں جماعت تک وہ اچھے انداز میں پڑھتی محنت کرتی اور پاس ہوتی گئی لیکن اس کے ساتھ انہیں لکھنے کی رفتار بھی تیز کرنا تھی کیونکہ بڑی کلاس میں کم وقت میں زیادہ لکھنا پڑتا ہے جو اس کے لیے رکاوٹ بن سکتا تھا۔
پھر ایسا ہی ہوا نویں جماعت کے لیے فرحانہ کو شہر کے سکول جانا تھا لیکن آنے جانے میں مشکل کی وجہ سے اس نے پرائیویٹ امتحان دینے کا فیصلہ کیا۔
نویں جماعت کے سالانہ امتحان میں نارمل لڑکیوں کی طرح سپیشل طالبہ کو بھی پرچہ حل کرنے کے لیے تین گھنٹے کا وقت دیا گیا فرحانہ کے مطابق ہاتھوں سے تیز رفتاری سے لکھنے والوں کے مقابلے میں اس کی لکھنے کی سپیڈ بہت کم تھی جس پر ہیڈ نگران سے اضافی وقت کا تقاضا کیا لیکن اجازت نہ ملی۔ نگران نے میڈیکل سرٹیفکیٹ لانے کو کہا۔
’’میڈیکل سرٹیفکیٹ لینے گئی تو ڈاکٹر نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ یہ پڑھنے کے قابل نہیں اسے گھر بٹھاؤ۔ ان الفاظ نے بہت دکھ دیا لیکن یہ سوچ کر سنبھل گئی کہ ساتھ دینے والوں کی تعداد زیادہ ہے‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ دسویں جماعت میں چیئرمین بورڈ کو اضافی وقت کے لیے درخواست دی لیکن رد کر دی گئی۔

فرحانہ کی استانی اس کی ہمت اور جرات کے بارے میں بتا رہی ہیں
وہ بتاتی ہیں کہ ویسے تو وزیر اعلیٰ پنجاب فروغ تعلیم کے حوالے سے بہت دعوے کرتے ہیں مجھ جیسے پڑھنے کے شوقین لوگوں کے لیے محکمہ تعلیم کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں جس سے میرے جیسے طلبہ و طالبات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
فرحانہ ان دنوں بارہوں جماعت کا امتحان دے رہی ہیں انہوں نے پڑھ لکھ کر استانی بننے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
فرحانہ کے بڑے بھائی مبشر حنیف بتاتے ہیں کہ ہم فرحانہ کو تعلیم دلانے میں مکمل طور پر معاونت کر رہے ہیں لیکن محکمہ تعلیم کے ناروا رویے پر مایوسی ہوئی۔
انہوں نے صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود احمد خان سے مطالبہ کیا کہ فرحانہ جیسے طلبہ و طالبات کو الیکٹرک چیئر کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات بھی فراہم کی جائیں تاکہ وہ احساس کمتری کے بغیر آسانی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔
فرحانہ بتاتی ہیں کہ وہ کبھی دوسرے شہر سیر کرنے نہیں گئی وہاڑی کے پارک میں ایک دو بار آئی لیکن لوگ عجیب اور ترس کھانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں اس لیے زیادہ باہر نہیں جاتی۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کا رویہ اس حوالے ابھی تک نہیں بدل سکا۔ اگر لوگ معذوروں کے ساتھ بھی نارمل لوگوں جیسا سلوک کریں تو ہمت بڑھے گی اور مزید آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہو گا۔