124

وہاڑی کا ‘سیف سٹی پراجیکٹ’

ڈی پی او وہاڑی کی جانب سے تھانہ کلچر میں تبدیلی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔

ضلعی پولیس آفیسر عمر سعید ملک کو وہاڑی میں تعینات چھ ماہ ہو گئے جس دوران انہوں نے وہاڑی میں تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کے لیے چند اقدامات کیے۔

پولیس کے نظام کو بہتر بنانے اور شہریوں اور پولیس کے درمیان حائل خلیج کو پُر کرنے کے لیے انہوں نے بہت سے اقدام کئے جس سے جرائم کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

گزشتہ روز ہونے والی پریس کانفرنس میں ڈی پی او نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پولیس لائنز میں ایک کنٹرول روم بنایا جا رہا ہے جس میں لاہور کے سیف سٹی پراجیکٹ کے طرز کا نظام لا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کنٹرول روم میں ضلع بھر کے تعلیمی اداروں، بنکوں، پولیس اسٹیشنز کے کیمرے ایک ہی چھت کے نیچے آ جائیں گے جس سے نا صرف چوری ڈکیتی کی وارداتوں پر کنٹرول کیا جا سکے گا بلکہ کسی بھی خطرے کی صورت میں ریڈ الرٹ جاری کیا جا سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ضلع بھر کے انیس تھانوں میں فرنٹ ڈیسک قائم کر دیے ہیں جن میں ایک ہی طرز کا تعمیراتی کام کرایا اور فرنیچر مہیا کیا گیا ہے۔

“فرنٹ ڈیسک میں پڑھے لکھے اور نوجوان مرد و خواتین سٹاف کو بطور پولیس اسٹیشن اسسٹنٹ تعینات کیا گیا ہے جس کا مقصد محرر اور تفتیشی کی بجائے بہترین ماحول میں عوام کے مسائل کے حل اور فوری آن لائن مقدمات کا اندراج یقینی بنایا جا سکے۔”

تھانوں کے ہر کیمرے کی رسائی انٹرنیٹ کے ذریعے ڈی پی او کے موبائل فون تک بھی جس سے فیلڈ میں ہوتے ہوئے بھی مانیٹرنگ ممکن ہو سکی ہے۔”عمر سعید ملک”

ڈی پی او کے مطابق ضلع بھر کے تمام تھانوں میں تین تین کیمرے نصب کیے ہیں جن میں ایک ایس ایچ او کے دفتر دوسرا حوالات اور تیسرا فرنٹ ڈیسک آفس میں لگایا گیا۔

‘کیمرے لگانے کا مقصد حوالات میں ملزم پر بے جا تشدد کی روک تھام اور تھانے سے کرپشن کا خاتمہ ہے جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے ہیں۔’

قابل ذکر بات یہ ہے کہ تھانوں کے ہر کیمرے کی رسائی انٹرنیٹ کے ذریعے ڈی پی او کے موبائل فون تک بھی جس سے فیلڈ میں ہوتے ہوئے بھی مانیٹرنگ ممکن ہو سکی ہے۔

“ضلع کے تمام تھانوں میں ویڈیو لنک کانفرنس روم بنائے جائیں تاکہ دور دراز کے تھانوں سے افسران کو وہاڑی بلانے کی بجائے ان کے دفتر میں ہی میٹنگ کی جا سکے جس کا آغاز ڈی ایس پی میلسی کے دفتر میں ویڈیو لنک کانفرنس روم بنانے سے کر دیا گیا ہے۔”

ڈی پی او کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسران کی کپیسٹی بلڈنگ کے لیے ضلع کے قابل ججز سے انوسٹی گیشن کورسز کرائے جانئیں گے تاکہ تفتیش کے عمل کو تیز اور بہتر کیا جا سکے۔

پولیس لائنز میں جنوبی پنجاب کی پہلی فائرنگ رینج بھی قائم کر دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل پولیس افسران کو فائرنگ پریکٹس کے لیے میلسی گیریژن جانا پڑتا تھا جب کہ پولیس کی اپنی فائرنگ رینج نہ تھی اس لیے ملازمین اور افسران کو فائرنگ پریکٹس کیے بیس بیس سال گزر جاتے تھے۔

 پولیس لائنز میں جنوبی پنجاب کی پہلی فائرنگ رینج بھی قائم کر دی گئی ہے۔

پولیس لائنز میں جنوبی پنجاب کی پہلی فائرنگ رینج بھی قائم کر دی گئی ہے۔

پولیس لائنز میں موجود فائرنگ رینج سے ناصرف پولیس ملازمین استفادہ حاصل کریں گے بلکہ تعلیمی اداروں، بنکوں اور دیگر محکموں کے گارڈز کو بھی فائرنگ کی تربیت دی جائے گی۔

عمر سعید ملک نے بتایا کہ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ڈی پی او دفتر میں وومن ڈیسک بنایا ہے جہاں پر لیڈی پولیس تعینات کریں گے اس کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس سیل اور میڈیا سیل بھی بنایا گیا ہے جس کے مقصد نام ہی سے واضح ہیں۔

‘پولیس ملازمین کی مدد کے لیے گزارا الاؤنس، ان کے بچوں کی شادی، صحت اور تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کے لیے ویلفیئر ڈیسک قائم کر دیا گیا ہے کیونکہ عوام کے ساتھ ساتھ پولیس ملازمین کا خیال رکھنا بھی محکمہ ہی کی ذمہ داری ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ لاہور میں ڈولفن فورس کی طرز پر سٹریٹ کرائم کے خاتمے کے لیے فالکن فورس بنائی جس کے لیے باہر سے کوئی پیسہ یا فنڈ نہیں لیا گیا بلکہ پولیس کے ذاتی بجٹ میں رہتے ہوئے کام کیا گیا ہے۔

کاسٹ آف انوسٹی گیشن کی صورت میں مدعیان پر مالی بوجھ پڑتا تھا جس کو دیکھتے ہوئے انوسٹی گیشن کا ایک ایک پیسہ پولیس کی جانب سے ادا کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے جس کا آغاز کرتے ہوئے تفتیشی افسران میں چیک بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔

کمیونٹی پالیسنگ کے تحت ہی پولیس کوارڈینیٹرز اپنے اردگرد ہونے والے کالے دھندوں، منشیات فروشی یا دیگر جرائم کے بارے میں ایس ایم ایس کے ذریعے پولیس کو اطلاع دیں گے۔”ڈی پی او”

عمر سعید ملک کے مطابق کمیونٹی پالیسنگ آج کی ضرورت بن چکی ہے جس کے فروغ کے لیے بنک منیجرز، تعلیمی اداروں کے پرنسپلز، بلدیاتی منتخب نمائندگان، وکلاء، تاجر رہنماؤں کے ساتھ الگ الگ سیشن کر کے انہیں پولیس کی جانب سے اونر شپ دی گئی جس سے عوام کے پولیس پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مسیحی برادری کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ان کے مذہبی تہواروں میں شرکت کی جب کہ مدرسوں میں بھی طلبہ سے بات چیت کی جس سے ان کی سوچ میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔

“کمیونٹی پالیسنگ کے تحت ہی پولیس کوارڈینیٹرز کی رجسٹریشن جاری ہے جس میں تمام شعبہ زندگی کے لوگ شامل ہیں ۔ان کے ذمہ اپنے اردگرد ہونے والے کالے دھندوں، منشیات فروشی یا دیگر جرائم کے بارے میں ایس ایم ایس کے ذریعے پولیس کو اطلاع دینا ہے۔”

اب تک آٹھ ہزار سے زائد پولیس کوارڈینیٹر رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جبکہ پولیس کا ہدف پچاس ہزار کوارڈی نیٹر بنایا ہے۔

ڈی پی او عمر سعید ملک کی جانب سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کے لیے اٹھائے اقدامات کسی حد تک حوصلہ افزاء ہیں لیکن ایسے اقدامات سے پولیس کی کارکردگی میں بہتری اور جرائم کی شرح میں کس حد تک کمی آتی ہے آئندہ چند ماہ یہ بتانے کے لیے کافی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں